تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | دزفول ایران میں مقیم محبوب کبریاء کے جلیل القدر صحابی اور مظلوم کربلا کے پہلے زائر جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کی پاکیزہ نسل کے متقی و مخلص عالم جناب محمد امین انصاری کی شریکہ حیات و حسنات کہ جنکی زندگی میں کبھی نماز شب بھی قضا نہیں ہوئی انھوں نے خواب میں دیکھا کہ قرآن ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے انکو قرآن کریم عطا فرمایا جسکی تعبیر اہل نظر نے یہ بتائی کہ عنقریب اللہ آپ کو ایک صالح اور عظیم المرتبت بیٹا عطا فرمائے گا۔ اور 1214 ہجری میں اللہ نے اپنی سب سے بڑی عید عید غدیر کے دن ایک بیٹا عطا کیا۔ امام علی مرتضی علیہ السلام کی ولایت کا روز تھا لہذا بیٹے کا نام والدین نے مرتضی رکھا۔
قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شیخ مرتضی انصاری نے 1232 ھ میں اپنے چچا شیخ حسن انصاری سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں اپنے والد ماجد کے ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت پر تشریف لے گئے اور کربلا میں تقریبا چار برس جناب سید محمد مجاہد اور شریف العلماء مازندرانی علیہماالرحمہ سے کسب فیض کیا۔ جب داود پاشا نے کربلا معلی پر حملہ کیا تو علمائے کرام کے ہمراہ کاظمین تشریف لے گئے اور چند دن بعد دزفول واپس چلے گئے۔
شیخ انصاری قدس سرہ نے تقریبا ایک برس دزفول میں قیام کیا اور دوبارہ کربلا تشریف لے گئے اور ڈیڑھ سال تک شریف العلماء کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہاں شیخ موسی کاشف الغطا قدس سرہ کے درس میں شریک ہوئے اور دزفول واپس آ گئے۔
شیخ انصاری قدس سرہ 1240 ہجری میں دزفول سے امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد مقدس کے لئے روانہ ہوئے۔ جب اپنے بھائی شیخ منصور کے ساتھ بروجرد پہنچے تو وہاں شیخ اسداللہ المعروف بہ حجت الاسلام کی درخواست پر ایک ماہ قیام فرمایا اور اصفہان تشریف لے گئے جہاں جناب محمد باقر شفتی رشتی کے درس میں شامل ہوئے۔
اصفہان کے بعد کاشان اور اس کے بعد چند ماہ مشہد میں قیام فرما کر دزفول واپس آئے اور چار برس وطن میں قیام کر کے نجف اشرف واپس تشریف لے گئے اور وہاں درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔ آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں مرجع عالی قدر فقیہ و مجاہد آیت اللہ العظمی میرزا محمد حسن شیرازی قدس سرہ، آیت اللہ العظمی حاج میرزا حبیب الله رشتی قدس سرہ ، آیت اللہ العظمی آقا حسن نجم آبادی تهرانی قدس سرہ ، آیت اللہ العظمی آقا سید حسین کوه کمره ای قدس سرہ ، آیت اللہ حاج شیخ جعفر شوشتری مرحوم، آیت اللہ سید جمال الدین اسدآبادی مرحوم اور آیت اللہ آخوند محمد کاظم خراسانی قدس سرہ سرفہرست ہیں۔
اسی طرح شیخ انصاری قدس سرہ کی تالیفات و تصنیفات کی بھی طویل فہرست ہے جنمیں رسائل و مکاسب زیادہ مشہور ہو اور حوزات علمیہ کے نصاب تعلیم کی زینت ہیں۔
شیخ انصاری قدس سرہ کے عظیم علمی مقام و مرتبہ کے اس وقت سے آج تک کے علمائے ابرار اور فقہائے روزگار معترف ہیں۔ آپ کے زمانے کے مشہور عالم و معلم آیت اللہ سید حسین کوہ کمرہ ای مرحوم ایک دن جب طلاب کو درس دینے کے لئے مسجد میں وقت سے تھوڑا پہلے تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک گوشہ میں شیخ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے ہیں، یہ بھی توڑا فاصلے سے بیٹھ کر سننے لگے تو محسوس ہوا کہ ان سے بہتر طلاب کو درس دے رہے ہیں تو دوسرے دن بھی شیخ کے درس میں فاصلہ سے شریک ہوئے تو یقین ہو گیا کہ شیخ ان سے برتر ہیں تو اپنے شاگردوں سے کہا کہ یہ شیخ مجھ سے بہتر ہیں لہذا میرے درس کے بجائے ہم سب ان کے درس میں شامل ہوں اور اپنے درس کو تعطیل کر کے شیخ انصاری رہ کے درس میں شامل ہو گئے۔
شیخ انصاری قدس سرہ سے جب مرجعیت کی گذارش کی گئی اور رسالہ عملیہ کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: صاحب جواہر موجود ہیں لہذا انہیں کی تقلید کی جائے۔ صاحب جواہر رہ نے اپنے آخری وقت موجود لوگوں سے شیخ انصاری رہ کے دست مبارک تھام کر فرمایا: یہ میرے بعد تمہارے مرجع تقلید ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صاحب جواہر رہ کی رحلت کے بعد بھی آپ نے مرجعیت قبول نہیں کی اور فرمایا: جناب سعید العلماء ماندرانی موجود ہیں آپ لوگ ان سے رجوع فرمائیں اور خود انکو خط لکھا کہ آپ نجف اشرف تشریف لائیں اور مرجعیت کی ذمہ داریوں کو سنبھالیں کیوں کہ آپ مجھ سے زیادہ عالم ہیں۔ تو جناب سعید العلماء رہ نے جواب میں تحریر فرمایا: مجھے فقہ میں آپ سے زیادہ تسلط تھا لیکن میں ایک عرصہ سے درس و تدریس سے دور ہوں اور آپ مشغول ہیں لہذا آپ مجھ سے بہتر اور مرجع تقلید ہیں۔ جس کے بعد شیخ انصاری قدس سرہ نے مرجعیت قبول فرمائی۔
شیخ انصاری قدس سرہ جہاں ایک عظیم عالم تھے وہیں ایک عظیم عابد و زاہد تھے روزآنہ ایک پارہ قرآن کریم کی تلاوت، نماز جعفر طیار، زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ آپ کے دستور زندگی میں شامل تھا۔ اہل سنت عثمانی بادشاہ نے آپ کے زہد کو دیکھا تو کہا "خدا کی قسم وہ فاروق اعظم ہیں۔" اسی طرح عیسائی برطانوی نمایندہ نے جب آپ سے ملاقات کی تو کہا:"خدا کی قسم وہ یا تو عیسی مسیح ہیں یا انکے خاص نائب ہیں۔" شرعی رقومات کے استعمال میں کمال احتیاط اور والدین کی اطاعت آپ کا خاصہ تھا۔
67 برس کی با مقصد و با برکت زندگی بسر کرنے کے بعد 18 جمادی الثانی 1281 ہجری کو آپ نے رحلت فرمائی اور امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔